تعلیم کی تکنیک
کلیم عاجز
پہلے لوگ کسی چیز کی تکنک نہیں جانتے تھے۔گروجی، پنڈت جی ، مولوی صاحب پڑھانے کی ترکیب نہیں جانتے تھے، لیکن پڑھا دیتے تھے تو مٹی سونا بن کر چمکنے لگتی تھی، اور لکڑی ہوائی جہاز بن کر اڑنے لگتی تھی۔۔۔۔اب سارے تکنکوں کے استاد۔۔۔ماسٹر صاحب اور پروفیسر صاحب پڑھاتے ہیں توسونا مٹی کر بن کر نکلتا ہے۔۔۔ہوائی جہاز سوکھی لکڑی بن جاتا ہے،جلانے کے علاوہ جو کسی کام نہیں نکلتا۔آتا ہےآدمی اور نکلتا ہے جانور بن کر۔۔حکیم صاحب اکسرے کی تکنک نہیں جانتے تھے۔تھرمامیٹر نہیں جانتے تھے۔لیکن نبض دیکھ کر مریض کا مرض ہی نہیں اس کی کئی پشتوں کے مریضوں کی تاریخ بتا دیتے تھے، افلاطون، ارسطو، سقراط،بطلیموس،کنفیوشس،بو علی سینا،نظامی،سعدی، خسرو، میر، غالب، کسی فن کی ترکیب نہیں جانتے تھے جو آج لوگ جانتے ہیں لیکن جو تکنیک انھوں نے دی ہے وہ اب تک آسمانی ہی ہے اور لوگ ابھی زمین کی سے بالشت بھر نہیں اٹھے ہیں۔لوگ بندوق بنانے کی ترکیب جان گئے،راکٹ کی جان گئے، چاند پر جانے کی ترکیب جان گئے۔لیکن دیوار تا بام ثریا، کج ہی جا رہی ہے چونکہ اول ہی کج ہو گئی۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
( سفرنامہ امریکا،ا یک دیسی، ایک بدیسی، کلیم عاجز ، صفحہ ج ۔د)
تبصرے 0
تبصرے لوڈ ہو رہے ہیں...
اپنا تبصرہ لکھیں