غامدی صاحب کی دین کی تعریف بھی متضاد متناقض ہے:سید خالد جامعی
پروفیسر سید خالد جامعی
غامدی صاحب کی دین کی تعریف بھی متضاد متناقض Oxymoron ہے
دین لاریب صرف قرآن اور سنت کو کہتے ہیں :غامدی، میزان،۲۰۱۵ء،ص ۱۵
قرآن و سنت کے سوا کسی چیز کو دین نہیں کہا جاسکتا:غامدی ،میزان، ۲۰۱۵ء،ص ۱۵
حدیث اور اسوۂ حسنہ دین نہیں کہلائے جاسکتے:غامدی ،میزان،۲۰۱۵ء،ص۱۵
سنت حدیث اسوۂ حسنہ یہ تینوں چیزیں دین ہیں: غامدی، مقامات، ۲۰۱۴ء،ص ۱۴۹۔۱۵۰
دین کی حیثیت سے ہر مسلمان سنت حدیث اور اسوۂ حسنہ کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کا پابند ہے:غامدی، مقامات،۲۰۱۴ء، ص ۱۴۹
غامدی صاحب کو علاوہ [Include] اور سوا [Exclude] کا فرق بھی نہیں معلوم جو شخص اردو کے دو الفاظ سوا اور علاوہ میں فرق نہیں کرسکتا وہ اس مت کو دین سکھا رہا ہے
سیّد خالد جامعی
غامدی صاحب کی تمام تحقیقات، ان کے اصول، ان کا دین سب تضادات و تناقضات کا شاہکار ہیں وہ آج تک دین کی تعریف بھی متعین نہیں کرسکے ان کے افکار اور زندگی کی طرح ان کا دین بھی سیماب صفت ہے ان کے تفردات پڑھیے:
اصول: دین صرف قرآن و سنت ہے اس کے سوا کوئی چیز دین نہیں:غامدی
دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اس کے بعد اس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔دین قانون و حکمت کا مجموعہ ہے۔یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: (۱) قرآن مجید، (۲) سنت(غامدی، میزان،۲۰۱۵ء،ص۱۳)
اصول:دین صرف اور صرف قرآن و سنت کا نام ہے:غامدی
حدیث اور اسوۂ حسنہ دین نہیں ہیں:غامدی
دین لاریب انھی دو صورتوں میں (قرآن اور سنت میں)ہے۔ ان کے (قرآن و سنت کے علاوہ) علاوہ کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے ان کے بارے میں یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ان کی تبلیغ و حفاظت کے لیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں تو انھیں آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں۔حدیث میں دین سے متعلق چیزیں در حقیقت قرآن و سنت میں محصور دین کی تفہیم و تبیین ہیں اور اس پر عمل کے لیے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔(غامدی، میزان،ص۱۵)
حدیث ظنی ہے لہٰذا دین نہیں ہوسکتی: غامدی
اصول:دین صرف قرآن و سنت ہے ان کے علاوہ کوئی چیز دین نہیں:غامدی، میزان،۲۰۱۵ء، ص ۱۵
واضح رہے کہ غامدی صاحب نے یہاں لفظ علاوہ استعمال کیا ہے یہاں علاوہ کا استعمال بالکل غلط ہے علاوہ کا مطلب ہے (Include) یہاں انہیں لفظ سوا استعمال کرنا چاہیے تھا جس کا مطلب ہے [Exclude] یعنی غامدی صاحب یہ کہنا چاہتے تھے کہ قرآن و سنت کے سوا کوئی چیز دین نہیں کہلا سکتی مگر وہ یہ لکھ رہے ہیں کہ قرآن و سنت کے علاوہ بھی کوئی چیز دین ہے:میزان ۱۹۸۵ء ، میزان ۲۰۰۰ء اور میزان ۲۰۰۷ء سب میں انہوں نے علاوہ کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی یہ کتابت کی حروف چینی Proof reading کی اور اتفاقی غلطی نہیں ہے ۔ حضرت والا کو دونوں الفاظ کا بنیادی فرق ہی نہیں معلوم۔جو شخص اردو کے دو الفاظ علاوہ اور سوا کا فرق بھی نہیں جانتا وہ اس امت کے سامنے سب سے بڑے مجتہد کے طور پر پیش ہورہا ہے یہ المیہ ہے۔
اصول:سنت حدیث اسوہ حسنہ پر دین کی حیثیت سے ہر مسلمان عمل کا پابند ہے:غامدی
اصول: رسول نے دنیا کو دین کی حیثیت سے چار چیزیں دی ہیں:غامدی
چار چیزیں قرآن ، سنت، تفہیم و تبیین، اور اسوۂ حسنہ یہی دین ہے:غامدی
اصول:سنت حدیث اسوۂ حسنہ تینوں دین ہیں:غامدی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔ اس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:(۱) مستقل بالذات احکام و ہدایات جن کی ابتدا ء قرآن سے نہیں ہوئی۔(۲)مستقل بالذات احکام و ہدایات کی شرح و وضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر ۔(۳)ان احکام و ہدایات پر عمل کا نمونہ۔
یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ دین کی حیثیت سے ہر مسلمان انھیں ماننے اور ان پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
ہمارے علماء ان تینوں کے لیے ایک ہی لفظ ’’سنت‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ میں اسے موزوں نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک پہلی چیز کے لیے ’’سنت‘‘ دوسری کے لیے ’’تفہیم و تبیین‘‘ اور تیسری کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے۔(غامدی، مقامات، ۱۴۹،۱۴۰)
تبصرے 0
تبصرے لوڈ ہو رہے ہیں...
اپنا تبصرہ لکھیں