مغرب کا قصہ
مطالعات-4
محمد طارق غازی
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ سوائے چند بھولے بھالے کاشتکاروں اور کچھ بدؤوں کے، دنیا کےباقی سارے مسلمان تو ‘‘مغرب ہی“ کے باشندے ہیں.
چارلس گائی ایٹن
دی مسلمس ان دی ویسٹ
Charles Gai Eaton
The Muslims in The West
http://www.tanzeem.org/resources/articles/article.
یہ قول ایک خالص مغربی مسلمان کا ہے.
جانتے ہیں یہ شخص کون تھا؟چارلس لی گائی ایٹن نسبی طور پر سوئزر لینڈ سے تعلق رکھتے تھے. ان کی ولادت1921 میں سوئزر لینڈ میں لوزاں نامی شہر میں ہوئی تھی. ان کی والدہ انگلستان میں بس گئی تھیں.وہیں چارلس کی تعلیم ہوئی. ابتدا میں اپنا خاندانی مذہب عیسائیت ترک کرکے وہ ملحد ہوگئے تھے.دوسری عالمی جنگ کے دوران وہ مصر میں مدرس اور ایک اخبار کے اڈیٹر رہے پھر برطانوی سفارت کار کے طور پر جمیکا ، ٹرینیڈاڈ اور گھانامیں اور بطور ڈپٹی ہائی کمشنر (قنصل جنرل)مدراس (اب چنئی) میں بھی کام کیا. اسی اثنا میں ان کی ملاقات ہم وطن برطانوی سکالر مارٹن لنگس عرف ابو بکر سراج الدین(1909-2005) سے ہوئی جو مسلمان ہوچکے تھے. ان کی ہدایت پر چارلس نے بھی 1951 میں اسلام قبول کرلیا اور اسلامی نام حسن عبدالحکیم رکھ لیا. تاہم علمی دنیا میں وہ اپنے پرانے نام ہی سے معروف رہے، اگرچہ بعض حلقوں میں حسن لی گائی ایٹن کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں.انہوں نے عام مسلمانوں، خاص طور سے مغربی ملکوں میں بسے ہوئے اہل اسلام کے متعلق کچھ کتابیں اور بے شمار مضامین لکھے ہیں.ان کا انتقال 2009 میں ہوا.
تو وہ پوچھتے ہیں کہ دنیا میں وہ اصلی مسلمان ہیں کہاں. سچ یہ ہے کہ ہم سب تو بالکل مغربی لوگ ہیں۔ ہم میں اور دوسروں بھلا فرق ہی کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں. ہمارا رہن سہن، بود و باش، لباس، غذا،تعلیم، تمدن، تہذیب تو کہیں سے مسلم نہیں لگتے. پھر مغرب سے شکایتیں کبھی ہیں.
مسئلہ یہی ہے. ہم جب مغرب کو برا بھلا کہتے ہیں تو در اصل خود کو برا کہتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کرتی.
تبصرے 0
تبصرے لوڈ ہو رہے ہیں...
اپنا تبصرہ لکھیں